تحریر:سید قمر عباس الحسینی حسین آبادی

ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون (آل عمران ۔ ۱۶۹﴾

,, اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں كو مردہ خیال نہ كرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار كے یہاں رزق پارہے ہیں ۔ ٬٬

اللہ كی راہ میں شہید ہوجانا یعنی ,, القتل فی سبیل اللہ ٬٬ ایك ایسا بلند ارفع اور اعلی ہدف ہے كہ جس كی جستجو میں ایك با ایمان شخص كہ جو اسلام كی نسبت، پختہ، مضبوط اور غیر متزلزل عقیدے كا حامل انسان ہواكرتا ہے اپنے پورے سرمایہ حیات كو داؤ پر لگاتا دیتا ہے ۔ لہذا شاید اسی وجہ سے اگر تاریخ انبیاء، آئمہ طاہرین (ع)، اولیا كرام كو ملاحظہ كریں تو ان پاك ہستیوں كا بھی ہدف، یہی شہادت القتل فی سبیل اللہ ) دكھائی دیتا ہے ۔ اس كی وجہ یہ ہے كہ (شہادت) وہ راستہ ہے كہ جو مختلف قسم كی مشكلات اور درد والم كے سایے میں زندگی اور حیات كو اس كا صحیح مفہوم عطا كرتا ہے ۔ یہ مشكلات اور دردو الم وہ مشكلات ہیں كہ جنھیں اللہ كے مومن بندے اس روئے زمین پر اللہ كے مقصد اور ہدف كو تحقق بخشنے كے لئے تحمل اور برداشت كرتے ہیں ۔ اور شاید اس كی وجہ یہ بھی ہوسكتی ہے كہ شہادت ایك ایسا راستہ ہے كہ جس پر چلتے ہوئے اللہ كے مخلص بندے اپنے نفس كو پاك اور پاكیزہ كرتے اور اسے اس بات پر آمادہ كرتے ہیں كہ ہمیشہ ھوا و ہوس اور دنیا كی ان لذتوں سے بیزاری كا اظہار كرے كہ جو انھیں اپنے معبود حقیقی سے اور اس كی رضا و خوشنودی سے دور ركھتی ہیں ۔

1۔ قرآن ،حدیث اور شہادت

اگر ہمیں شہادت كی عظمت و اہمیت اور اس كے فلسفے كو قرآن اور حدیث كی نگاہ سے دیكھنا اور سمجھنا ہو تو پھر سب سے پہلے ہمیں زندگی كا مفہوم اور وجود و بقا كے مفہوم اور اس كے فلسفے كو سمجھنا ہوگا ۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں یہ دیكھنا ہوگا كہ خدا كو انسان كا وجود پسند ہے یا اس كا عدم ؟ اس كی (بقا) پسند ہے یا اس كا (فنا) ہونا پسند ہے ؟ ان مندرجہ بالا سوالوں كا جواب اگر یہ دیاجائے كہ خدا كو اس كا ( نہ ہونا) نابودی اور فنا پسند ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے كہ اسے پھر خدا نے كیوں (خلق) كیا ؟ كیوں اسے (وجود) عطاكیا ؟

یہ مذكورہ جواب قرآن وحدیث اور عقل كے مطابق صحیح نہیں ۔ لہذا ان سوالوں كا جواب جاننے كے لئے ہمیں قرآن اور كلام رسول (ص) وآئمہ طاہرین (ع) كی طرف رجوع كرنا ہوگا۔

قرآن کریم کے  آیات مبارکہ  سے یہ معلوم ہوتاكہ جب خدا كی نگاہ میں انسان كی نسبت اس كا بہترین تحفہ اور نعمت، اس كا خلق ہونا ہے تو پھر كیونكر خدا اس كے لئے فنا اور نابودی كو پسندیدہ قرار دے كر اسے ( شہادت اور قتل فی سبیل اللہ ) پر اكسا كر متحرك كرسكتا ہے ۔ لہذا خدا انسان كے لئے زندگی چاہتا ہے وجود چاہتا ہے، بقا چاہتا ہے، نہ فنا، نابودی اور ہلاكت ۔

لہذا اس وجہ سے شاید خداوند عالم نے سورہ آل عمران (۱۶۹۔ ۱۷۱) میں یہ فرمایا كہ !

,, ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء …

مندرجہ بالا بیان سے معلوم ہوا كہ دنیا سے چلاجانا، ظاہری طور پر دكھائی نہ دینا، یعنی موت كا طاری ہوجانا، انسان كے لئے فنا اور نابودی نہیں ۔ بلكہ موت آئمہ طاہرین (ع) كے اقوال كے مطابق پل ہے جس سے ایك جہاں  سے دوسرے جہاں تك پہنچا جاسكتا ہے ۔موت اللہ سے ملاقات كا ذریعہ ہے ۔ موت متقین كے لئے اور اولیاء خدا كے لئے بہترین چیز ہے ۔ مولائے كائنات خطبہ (۱۹۳ خطبہ ) فرماتے ہیں ۔كہ !

,, ہعنی اگر خدا كی جانب سے مقرر كردہ موت ان كے لئے نہ ہوتی تو ہرگز ان كی روحیں ثواب الہی كے حصول اور عقاب سے محفوظ رہنے كی خاطر ایك لحظہ بھی ان كے جسموں میں باقی نہ رہتی ۔,,

خداوند عالم كا ارشاد ہے سورہ ملك كی آیت ۲ میں ,, الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوكم ایكم احسن عملا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٬٬ یعنی خدا نے موت اورحیات كو (خلق) كیا تا كہ تمہیں آزمائے كہ تمہارے درمیان بہترین عمل كس كا ہے ؟

اس آیت پر غور كركے معلوم ہورہا ہے كہ موت فنا كا نام نہیں ۔ بلكہ وجود اور تكوین كا نام ہے ۔یعنی خدا نے جس طرح سے ,, حیات ,, كو خلق كیا اس طرح ,, موت ,, كو بھی خلق كیا ۔ یعنی دونوں خدا كی مخلوق ہیں ۔

2۔ موت كی بہترین صورت

رسول خدا (ص) كا ارشاد ہے ( اشرف الموت قتل الشھادۃ ) یعنی اشرف ترین موت، شہادت كی موت ہے ۔ ( بحار الانوار جلد ۱۰۰ صفحہ ۸ )

سورہ آل عمران كی آیت ( ۱۶۹ ۔ ۱۷۱ ) میں موت كی بہترین صورت شہادت كو قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اس سے بڑھ كر موت كی اور كون سی اچھی صورت ہوسكتی ہے كہ جس میں خدا شہیدوں كی شہادت كے بعد كی كیفیت كو بیان كررہا ہے كہ یہ لوگ شہادت كے ذریعے سے موت كو حاصل كرنے كے بعد خدا كے لطف و كرم سے رزق پاتے اور خدا كی عنایت اور فضل سے خوش اور مطمئن ہیں اور اپنے اہل خانہ، عزیزوں اور دوستوں كو پیغام دیتے ہیں ۔ كہ وہ ان كا غم اور افسوس نہ كریں ۔ اور ان كی فكر نہ كریں ۔ خدا نے انھیں بہترین نعمتوں اور فضل سے ہم كنار كیا ہے ۔

امیرالمومنین (ع) كا نھج البلاغہ خطبہ ۱۳۲ میں ارشاد ہے ,, تحقیق موت تمہاری جستجو میں ہے ۔ چاہے انسان میدان كارراز میں ہو یا میدان جنگ سے بھاگنے والا ہو بہترین اور مكرم ترین موت اللہ كی راہ میں قتل ہوجانا ہے ۔ اس ذات كی قسم كہ جس ك قبضہ قدرت میں علی ابن ابی طاہب (ع) كی جان ہے ۔ میرے لئے ہزار مرتبہ شمشیر كی ضربت كو كھانا آسان ہے ۔ اس موت سے كہ جو خدا كی مخالفت كی حالت میں بستر پر آئے ۔ ٬٬

3 ۔ شہادت، شكر كا مقام ہے نہ صبر

امیرالمومنین (ع) نھج البلاغہ خطبہ ۱۵۶ میں ارشاد ہے !

,, میں نے رسول خدا (ص) سے كہا اے پیغمبر خدا(ص) كیا آپ نے جنگ احد كے دن كہ جب چند اصحاب درجہ شہادت پر فائز ہوئے اور مجھے شہادت نصیب نہ ہوئی كہ جو مجھ پر بڑا گراں گزرا تو آپ(ص) نے اس وقت مجھے كہا تھا كہ '' اے علی (ع) تمہیں آنے والے دنوں میں شہادت نصیب ہوگی "۔

اس كے بعد مولا (ع) فرماتے ہیں كہ رسول خدا (ص) نے مجھ سے فرمایا كہ ,, ایساہی ہوگا كہ تم شہادت پاؤ گے ۔ جب تم شہادت كے درجے پرفائز ہوگے تو اس وقت تمہارے صبر كا كیا عالم ہوگا ؟ میں نے رسول (ص) كو جواب دیا كہ ,, اے پیغمبر خدا (ص) شہادت، صبر كا مقام نہیں بلكہ خوشی اور شكر كا مقام ہے ٬٬

مولا امیرالمومین (ع) كا ۱۹ رمضان كی شب كوابن ملجم كے ضربت كے بعد مشہور معروف جملہ فزت و رب الكعبۃاس بات پر دلیل ہے كہ موت اور شہادت اولیاء خدا كے لئے خوشی اور شادمانی اور كامیابی كی علامت ہے ۔

4 ۔ شہادت اور الہی تحفے

۱۔ تمام گناہوں كا معاف ہوجانا۔ كنزالعمال میں رسول (ص) كی روایت ہے:

,, ہرچیز كی بخشش كا ذریعہ شہادت ہے ۔ سوائے قرض كے ۔ ,, ایك اور روایت میں ہے كہ شہید كا ہر گناہ قرضہ كے علاوہ معاف ہوجاتا ہے ۔

۲۔ قبر میں آزمائش اور امتحان سے محفوظ رہتا ہے ۔

روایت میں ہے كہ ,, جو دشمن كے ساتھ مقابلہ كرتے ہوئے صبر اور استقامت سے كام لے یہاں تك كہ قتل ہوجائے یا غالب آجائے تو اس سے قبر میں سوال و جواب نہیں ہوں گے ۔ ٬٬ (رسول خدا(ص) كنزالعمال )

۳۔ زندگی اور حیات كا عطا ہونا:

شہید اپنی شہادت پیش كركے موت كو حیات اور زندگی عطا كرتاہے ۔

,, ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقو ٬٬

جو لوگ اللہ كی راہ میں مارے جائیں تم انھیں مردہ تصور مت كرو بلكہ وہ زندہ ہیں ۔ ( آل عمران ۔ ۱۶۹ )

" ولا تقولو المن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لكن لاتشعرون "

جو اللہ كی راہ میں مار جائیں تم انھیں مردہ مت كہو بلكہ وہ زندہ ہیں مگر تم اس كا شعور نہیں ركھتے ) (بقرہ ۱۵۴ )

شہادت ایك ایسا معنوی امر ہے كہ ایك انسان مومن اسكی معرفت اور شفاعت حاصل كرنے كے بعد اس دنیا كو وسیلہ سمجھتا ہے نہ ہدف جب كہ رسول خدا (ص) كا فرمان ہے ( الدنیا مزرعۃ الآخرۃ ) ,, دنیا، آخرت كی كھیتی ہے ٬٬ ۔ دنیا ایساوسیلہ ہے كہ جس سے اولیاء اللہ سہارا لیتے ہوئے منزل مقصد اور ہدف تك پہنچتے ہیں ۔ لہذا اس نظر اور منطق كا حامل شخص (مومن ) دنیا كی ظاہری نعمتوں كو اپنے ہاتھ سے جاتے ہوئے دیكھ كر شرمندگی اور افسوس كا احساس نہیں كرتا ۔ كیونكہ اس كی نگاہ ان چیزوں اور تحائف پر ہے كہ جو خدا كے پاس ہے لہذا آئمہ معصومین (ع) كے فرمان كے مطابق شہداء كے سوا كسی دوسرے مرنے والے كی دنیا میں واپس آنے كی آرزو نہیں ہوتی ) كیونكہ انھوں نے خدا كی جانب سے اپنے لئے جو اكرام اور احترام اور انعامات ملاحظہ كئے ہوتے ہیں وہ باعث بنتے ہیں كہ دنیا میں جاكر دوبارہ شہادت كے مرتبے پر فائز ہوں ۔

اگر شہادت كی محبت نہ ہوتی تو دین باقی نہ رہتا اور نہ ہی دین كا درخت سرسبز و شاداب ہوتا ۔ بلكہ یہ اسی كی محبت ہے كہ جس كی وجہ سے دین ہرا اور بھرا ہے كیونكہ شہادت ہی انسان كو بلند معنوی قوت عطا كرتی ہے ۔ كیونكہ شہادت سےمحبت ركھنے والے انسان، اللہ كی عطا كردہ قوت سے جہاد كرتے ہیں اس كے ارادے سے فعالیت دكھاتے ہیں اور اس نظر سے دیكھتے ہیں ۔ لہذا انھیں اللہ كی راہ میں شہادت كا رتبہ ملتا ہے ۔ (شہادت ) یعنی گواہی دیتے ہیں كہ واقعا اللہ كی ذات حق ہے لہذا اس بنا پر شہداء كرام كی سیرت كو اگر ملاحظہ كریں تو ان كی سیرت كی بنیاد اللہ پر ایمان كامل اور قوی اعتماد ہے ۔ یہ ایسا ایمان ہے كہ شہادت اور شہداء كی معرفت نہ ركھنے والے انسانوں كو حیران اور ششدر ہونے پر مجبور كرتے ۔

جذبہ مقاومت و مبارزہ قوموں اور حکمرانوں کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔اور جب یہ جذبہ سرد پڑ جائے اور قوم کے افراد حکمرانوں کے بے دام غلام بن جائیں تو حکمران طبقہ جری ہوجاتا ہے اور کسی کو خاطر میں لائے بغیر من مانی کرنے لگتا ہے ۔ اسلامی معاشرے مین مبارزے اور مقاومت کی روح پھونکنے میں حسینی انقلاب کا کردار بہت واضح  ہے کیونکہ یہ معاشرہ امام علی ؑ کی شہادت کے وقت سے لے کر قیام حسینی تک خاموش پڑے تھے امویوں  اور ان کے حامیوں کی طرف سے ہونے والی قتل و غارت گری کے برخلاف عوامی سطح  پر کسی قسم کا احتجاج یا انقلاب دیکھنے میں نہ آیا تھا اس وجہ سے لوگ ذہنی غلامی کا شکار ہوگئے تھے ۔بلکہ لوگ بیس سال تک ﴿۴۰ ہجری سے ۶۰ ہجری﴾  بنی امیہ کے فرمانبردار رہے تھے۔مگر حسینی انقلاب نے مسلمانوں کے اندر مجاہدانہ ذہنیت کو دوبارہ زندہ کیا ۔کربلا کے صحرا میں نواسہ رسول کا دیا ہوا درس حریت صدیاں گذر جانے کے باوجود آج بھی مومنین کے لئے مشعل راہ ہے بس ضرورت اس ایمان کی اس یقین اور اس سپاہ سالار کی ہے جو سیرت حسین ابن علی کا علمبردار ہو اور دل سے امام حسین کے اس افرمان کو ورد کرتا ہو "ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر"

کربلا صرف ایک سانحہ کا نام نہیں بلکہ کربلا قیامت تک مظلوموں کے لئے نشان راہ ہے ۔اسی راہ پر چلتے ہوئے گلگت بلتستان کے غیور عوام نے ۱۹۸۸ میں دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا تھا اور اب ۲۰۱۲ میں جب دشمنان اسلام اور امریکہ و اسرائیل کے نمک خوار گلگت بلتستان کے عوام کو للکارتا ہے تو انہیں اپنے علاقوں سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں ہوتی لیکن اپنے ہی گلی میں شیر بن کر مظلوم مسافروں کو شہید کرتے ہیں ۔ حسین سے بغض و عناد کا یہی دلیل ہے کہ جس نے بھی حسین کی مظلومیت پر زنجیر زنی کی ہو انہیں وہ قتل کرتے ہیں اور جس نے آل رسول کی محبت میں علی ،حسن اور حسین نام گزاری کی ہو انہیں بھی آل رسول سے محبت رکھنے کی جرم میں شہید کرتے ہیں نجانے یہ لو کس منہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اگر بغور ان کی ظالمانہ اور بے رحمانہ حرکتوں پر نگاہ کریں تو اسلام اور مسلمانیت کا بو بھی نہیں آتا۔ کیا رسول اللہ نے یہی درس دیا تھا کہ بیٹوں کو بے جرم و خطا ماوں کے سامنے قتل کردیا جائے کیا اصحاب رسول نےیہی درس دیا تھا کہ بے یارو مددگار مسافروں کو ہاتھ پیر باندھ کر دریا میں پھینک دیا جائے  کیا بہن کے سامنے بھائی کا خون بہانے کا درس دیا تھا ۔جتنے بھی مظلوم شیعہ کوہستان اور چلاس میں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا ہے وہ واقعا مظلومیت کی موت مرا ان کا ایک ہی جرم تھا کہ وہ نواسہ رسول اور ان کے آل سے محبت اور ان کی دشمنوں سے عدوات رکھتے ہیں  ہمیں یقین ہیں کہ راہ حسین بیٹے فدا کرنے والی مائیں اب بھی سکون کی نیند سوتی ہوں گی کہ ان کے بیٹوں نے جناب سیدہ کے سامنے انہیں سرخرو کردیا ۔

مذہب و ملت کے تحفظ کی خاطر انسان کو بڑی سے بڑی قربانی بھی پیش کرنے میں پرہرگز کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اگر راہ خدا میں جان دینا پڑے تو یہ کہہ کر جان فدا کر دیں کہ

جان دے دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا